An Article of Erudite Mansur Aafaq
بصیرت نامہ
منصور آفاق
آج کا اخبارادارتی صفحہ06 دسمبر ، 2024
Published by the Urdu Daily ‘Jang’.
وہ مجاہد جن پر پاکستان کو فخر کرنا چاہئے، ان میں ایک سید نیئرالدین احمد بھی ہیں۔ یہ نام کئی حوالوں سے معروف ہے ۔میں نے گزشتہ روز ان کا ایک آرٹیکل پڑھا۔جس میں نے انہوں نے کنڈ ملیر کے ساحلوں پر ایک عالیشان جدید ترین شہر کی تعمیر کی طرف حکومت کو متوجہ کیا تھا۔ میں اسے پڑھ کر حیران رہ گیا کہ کسی بڑی انویسٹمنٹ کے بغیر یہ دنیا کا خوبصورت ترین خود کفیل شہر کراچی سے تقریباً اسی نوے میل کے فاصلے پر آسانی سے آباد ہو سکتا ہے۔ جہاں جدید ترین انفراسٹرکچر بنانے کیلئے دنیا ٹوٹ پڑے گی۔ یہ مستقبل کا شہر ہو گا۔ پرنسز آف ہوپ اور اسفنکس آف بلوچستان کے زیر سایہ، دریائے ہنگول کے کنارے کنارے، پاکستان کے سب سے بڑے ہنگول نیشنل پارک کے پہلو میں، مٹی فشاں چٹانوں کے دہانے کے قریب، کنڈملیر کے ساحل کی چمکتی ہوئی لہروں کے آس پاس جس زمین کی کوکھ سے ابھرتے ہوئے شہر کا خواب انہوں نے دیکھا ہے۔ وہ کوئی اہل نظر ہی دیکھ سکتا ہے۔وہی اہل نظر جن کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا تھا
کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد
جیسےانہوں نے اس شہر کی پوری تفصیل درج کی ہے کہ وہ شہر کیسے توانائی کے معاملے میں خود کفیل ہو گا۔ کیوں دنیا بھر سے سیاح اس طرف رخ کریں گے۔ وہاں روزگار کے مواقع کس طرح دبئی وغیرہ سے بھی زیادہ ہونگے۔ پاکستان کی معاشی ترقی میں وہ شہر کتنا اہم کردار ادا کرے گا۔ اسے بنانے میں بین الاقوامی فرمیں کیوں تعاون کریں گی۔ وہ شہر ایکسپورٹ کا کیوں حب ہو گا۔ ان سوالات کے انہوں نے بڑے مضبوط دلائل کے ساتھ جواب دئیے ہیں۔ صرف یہی نہیں انہوں نے تو یہاں تک لکھ دیاکہ اس شہر کے آباد ہونے کا پراسس کیا ہو گا۔ کتنا عرصہ لگے گا۔ کتنے دورانیے میں مکمل ہو گا۔
اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے موقع پر بھارت کے حوالےسے انہوں نے جو کچھ لکھا تھا۔ اس کے بھی اثرات مرتب ہوئے تھے۔ انہوں نے پاکستان کی طرف سے بھارتی شہریوں کو سچی دوستی کا پیغام دیا تھا کہ بد اعتمادی چھوڑ کر ایک نئے سفر کا آغاز کریں کیونکہ دونوں کے پاس جنگ کسی شکل میں بھی کوئی آپشن نہیں۔ اگر وہ ممالک جنہوں نے دو عالمی جنگیں لڑی ہیں وہ پیار محبت کے ساتھ رہ سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں۔ آئیے ہم مل کر جنگ کریں، غربت، بھوک، بیماری اور ناخواندگی کے خلاف۔ ہم دونوں کے پاس جوہری ہتھیار ہیں یعنی ایک قوم کا دوسری کو ’’فتح‘‘ کرنے کا تصور متروک ہو چکا ہے۔ ہمارے درمیان جوہری جنگ دونوں ممالک کی خوفناک تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ ڈاکٹر شاہدہ وزیر ان کے متعلق کہتی ہیں۔ ’’انہوں نے ایسے کام کئے جو پاکستان فارن آفس نہیں کر سکا جو حکومتوں کے کرنے والے کام تھے۔ وہ ایک فرد واحد نے کیے۔ پوری انڈین حکومت کا مقابلہ کیا۔ میں چاہتی ہوں کہ میں ان کے ساتھ مل کر افغانستان میں انڈیا کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف کام کروں کیونکہ حکومت ِپاکستان آج کل اس حوالےسے بالکل خاموش ہے‘‘۔ ڈاکٹر شاہدہ وزیر نے ان کے جس کام کا حوالہ دیا ہے وہ بے شک ایک بہت بڑی قومی خدمت ہے انہوں نے مختلف ممالک کو اس بات پر قائل کیا کہ پاکستا ن دہشت گردی کی پشت پناہی نہیں کرتا بلکہ خود دہشت گردی کی زد میں آیا ہوا ہے۔ انہوں نے پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دلوانے کی مذموم بھارتی کوششوں کا جس انداز میں سدباب کیا وہ انتہائی قابل ِ تعریف ہے۔ انہوں نے دنیا کے سامنے ثابت کیا کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے پس منظر میں بھارت کا مکروہ چہرہ موجود ہے۔ آٹھ ممالک نے ان کی اس کوشش سے پاکستان کے متعلق اپنا نقطہ ِ نظر تبدیل کیا۔ میرا خیال ہےکہ اس پر حکومت ِپاکستان کو چاہئے کہ وہ انہیں تیئس مارچ کو ضرور تمغہ ِ امتیاز سے نوازے۔ وزیر اعظم میاں شہباز شریف انہیں بڑی اچھی طرح جانتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ وہ فوری اس کا اعلان کریں۔ کسی زمانے میں میاں محمد نواز شریف نے انہیں گورنر پنجاب لگانے کے متعلق بھی سوچا تھا۔ میری پہلی ملاقات شعیب بن عزیز نے ان سے اس وقت کرائی تھی جب وہ میاں شہباز شریف کے پریس سیکریٹری ہوتے تھےاور کہا تھا کہ ان کے کام سے میاں صاحب بہت خوش ہیں۔
جی 20کے موقع پر انہوں نے جس طرح بھارت میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے تمام ثبوت شریک ممالک کے سربراہان کے سامنے رکھے اور یہ کمپین چلائی کہ بھارت کو جی 20 کے باوقار فورم سے بے دخل کیا جائے کیونکہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ہاتھ معصوم کشمیریوں اور بھارتی مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ ان کا یہ کام بھی قابل تحسین ہے۔ آدمی کام دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ اتنے ثبوت وہ کیسے جمع کر لیتے ہیں۔ یعنی اپنی ذات میں وہ پورا ایک ادارہ ہیں۔سید نیئرالدین احمد ایک تہذیبی شخصیت بھی ہیں۔ ان کے جیسا رکھ رکھائو، اندازِ تکلم اب تو خال خال دکھائی دیتا ہے کہ انکے نانا شفا الملک حکیم خواجہ شمس الدین احمدکے حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبال کے گہرے دوست تھے۔ وہ لکھنؤ سے جب لاہور آتے تھے تو علامہ اقبال کے گھر قیام کیا کرتے تھے۔ ان کے والد سید شہاب الدین احمد علی گڑھ یونیورسٹی میں کیمسٹری پڑھایا کرتے تھے۔ انہوں نے ریڈیو ایکٹویٹی پر ایک نئی دریافت کی جسے بین الاقوامی طور پر تسلیم کیا گیا۔سید نیئرالدین احمد قومی اور ملٹی نیشنل کمپنیوں پر محیط چار دہائیوں کے کارپوریٹ تجربے کے ساتھ اپنی مہارت اور بصیرت کا خزانہ جب میز پر رکھتے ہیں تو اطراف میں روشنی ہونے لگتی ہے۔ ان کی شراکت ہمیشہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر ایک اہم تصویر بناتی ہے جس میں اسٹرٹیجک، اقتصادی، سیاسی، کھیلوں اور حالات حاضرہ کے مکالمے کے خدو خال دکھائی دیتے ہیں۔ وہ سراپا بصیرت نامہ لگتے ہیں۔